۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 374218
13 نومبر 2021 - 11:57
شہیدِ گمنام۔۔۔ناصر علی صفوی

حوزہ/ شہید ناصر علی صفوی اکثر کہا کرتے تھے کہ راستوں کی ویرانی اور جلتی دھوپ سے ڈرنے والے کبھی اپنی منزل نہیں پاسکتے۔شہید اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گٸے اور ہم حسرت سے یالیتنا کہتے رہ گٸے۔

تحریر : سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی ہم جہاں میں اسلامی انقلاب کے لیے ہونے والی کوششوں کا ایک حصہ ہیں یہ جملہ ہے مزاحمتی تحریک کے بانی شہیدعلی ناصر صفوی کاہے۔شہید ناصر صفوی مزاحمتی تحریکوں میں سے ایک کے بانی تھے،جو تکفیری اور متشددفکر کی حامل جماعتوں اور گروہوں کے عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے مقابلے میں وجودمیں آٸی۔شہید ناصر صفوی کی تحریک کی تفصیلات شاید کبھی میسر نہ ہوسکیں مگر اس بات میں کوٸی شک نہیں کہ شہید ناصر علی صفوی جیسی شخصيات برسوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔

جو افراد مکتبِ اسلام سے آشنا ہیں اور قوانين و مفاہیم اسلامیہ کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ اس امر کا باخوبی احساس کرتے ہیں کہ شہید ایک لفظ معظم اور منور ہے جس کو نور کی شعاعیں احاطہ کیے ہوٸے ہیں،یہ لفظ تمام ادیان اور اقوام کی نظر میں مقدس اور عظیم سمجھا جاتا ہے،اگرچہ اس کے معیار اور ضوابط میں اختلاف پایا جاتا ہے۔اگر کوٸی فرد راہِ خدا میں مقاصدِ اسلامی کی خاطراور انسانيت کی آبرو برقرار رکھنےکے لیےاپنی جان قربان کرتا ہے تو اسلام اُسے شہید جیسے عالی ترین مرتبہ سے سرفراز کرتا ہے۔قرآن مجید شہید کی حق سے وابستگی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ امواتا بل احیإ عند ربھم یرزقون

دینِ اسلام میں کسی شخصيت کی تعریف یا اس کے کام کی قدرو منزلت کو بیان کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخصيت کا مقام شہید کے رتبہ کے برابر ہے یا فلاں شخصيت نے جو نیک کام کیا ہے اُس کا ثواب شہید کے ثواب کے مساوی ہےکیونکہ حق شناس لوگ شہید کے خاص مقام کودرک کر چکے ہوتے ہیں۔شہیدوں کا حق اور احترام دوسری شخصيتوں کی نسبت زیادہ عظیم ہےکیونکہ شہدا کا شمار اُن عظیم اشخاص میں ہوتا ہے جنہوں نے بشریت کی خدمت کی ہے۔تمام بشریت شہدإ کی شکر گزار ہے لیکن اِس کے برخلاف شہدا اِن کے شکر گزار نہیں کیونکہ شہید اپنی زندگی کو قربان کرکے،اپنے بدن کو خاک وخوں میں غلطاں کرکے انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت نصیب کرتا ہے۔شہید کی شخصيت کو ایک شمع سے تعبير کیا جاسکتا ہے جس کا محبوب مشغلہ خود کو جلا کر،خود کو فنا کرکے روشنی اور نور کو پھیلانا ہے تاکہ بشر اس نور اور روشنی کی بدولت اپنی زندگی کو بہترین طریقے سے بسر کر سکے۔بزمِ شہدا میں شہید ناصر علی صفوی بھی ایک ایسی ہی شمع کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے کفر و الحاد کا خاتمہ اپنے پاکیزہ لہو کا خراج دے کر کیا اورتمام تر مصحتوں کو بلاٸے تاک رکھتے ہوٸے خالص اسلام محمدی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

فرض شناسی اور بروقت فیصلہ شہید علی ناصر صفوی کی شخصیت کا طرہ امتیاز تھا۔شہید علی ناصر صفوی سادگی اور پرہیز گاری کا مجسمہ تھے، وہ کردار و عمل میں ایک کامل انسان تھے۔ گھر میں ضرورت کی چند چیزوں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔وہ کوشش کرتے تھے کہ اسلام کے ایسے سپاہی بنیں جس پر خرچہ کم سے کم ہو اور فاٸدہ زیادہ سے زیادہ۔ احباب میں سے کسی نے بھی اُن کی نماز شب قضا ہوتے نہیں دیکھی۔ اگر سفر میں نہ ہوتے تو رجب، شعبان اور رمضان کے تمام روزے رکھتے تھے۔ یوں کہا جاٸے کہ شہید سادہ زیستی اور تقویٰ و پرہیز گاری کی ایک مجسم تصویر تھے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اس سادہ زیستی اور تقویٰ نے ان کی روح کی پرواز کو کبھی رکنے نہیں دیا۔ علی ناصر صفوی شہید کی مختصر دورانئے کی مزاحمتی تحریک ایک سربستہ راز ہے، جس میں ہزاروں سبق پوشیدہ ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ عیاں ہوں گے۔شہید کی شخصيت کے بہت سارے پہلو ابھی تک صیغہ راز میں ہیں۔شہید اکثر کہا کرتے تھے کہ راستوں کی ویرانی اور جلتی دھوپ سے ڈرنے والے کبھی اپنی منزل نہیں پاسکتے۔شہید اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گٸے اور ہم حسرت سے یالیتنا کہتے رہ گٸے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .